
ہری پور(ہم گواہ) معروف صحافی ناہید اختر کی گرفتاری اور حوالات میں ان کی تصویر وائرل ہونے پر خیبرپختونخواہ پولیس کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ ناہید اختر کو ایک لڑکی کو پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، تاہم صحافی برادری اور ان کے ساتھی اس گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
ہری پور پریس کلب کے ممبر اور روزنامہ جناح اسلام آباد کے بیوروچیف کے مطابق، چند دن پہلے ناہید اختر نے ایک مظلوم شخص کا ساتھ دیا تھا، جسے مبینہ طور پر اسی تھانے میں پولیس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ناہید اختر نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور پولیس کے غیر قانونی اقدامات کو بے نقاب کیا، جس کے بعد اب انہی پولیس اہلکاروں کی جانب سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
شاہد اختر اعوان: "یہ کارروائی آزادی صحافت کو دبانے کی کوشش ہے”
ہری پور پریس کلب کے سابقہ امیدوار برائے صدر، شاہد اختر اعوان نے ناہید اختر کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ناہید اختر جیسے نڈر اور ایماندار صحافی کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ "یہ صرف ایک صحافی پر نہیں، بلکہ پوری صحافی برادری پر حملہ ہے۔ اگر ناہید اختر کو انصاف نہ ملا تو ہم بھرپور احتجاج کریں گے،” انہوں نے مزید کہا۔
سوشل میڈیا پر کردار کشی؟
ناہید اختر کی حوالات میں تصویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ "ناہید اختر اس طرح کا انسان نہیں ہے، انہیں ایک سازش کے تحت بدنام کیا جا رہا ہے،” ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے۔
معاملہ مزید سنگین، تحقیقات کا مطالبہ
یہ معاملہ دن بدن سنگین رخ اختیار کر رہا ہے، جہاں ایک طرف پولیس اپنے مؤقف پر قائم ہے، وہیں دوسری جانب صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی اس گرفتاری پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ صحافی برادری نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ناہید اختر کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔
