عفوو درگزر پر قرآن کریم کی پانچ آیات: شفقنا گوشہ اسلام
09:13 | جمعہ جولائی 2، 2021 3K views

قرآن کریم میں ارشاد باری تعٰالٰی ہے ” اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشوره ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ اراده ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. ( القرآن 159: 3)
عفو ودرگزر کی اہمیت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے، اسلام رواداری، اخلاقیات اور دوسروں کو معافی کا درس دیتا ہے۔ اس لیے معاف کرنے والا بہترین مسلمان ہوتا ہے۔ اس لیے ہم ایک نظر اگر قرآن کریم پر دوڑائیں، اللہ کا لفظ جو کہ واضح حاکمیت رکھتا ہے اور معافی کی حقیقی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بہت ساری چیزیں مل جاتی ہیں۔ اگر ہم اللہ کی رحمت کی صفت کو حقیقی معنوں میں سراہنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی عفو و درگزر کو شامل کرنا ہوگا ۔ ذیل میں قرآن کریم سے پانچ آیات کا ذکر کیا گیا ہے جن پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اللہ کریم کی معاف کرنے والے صفت کی بھی صحیح معنوں میں تعریف کر سکتے ہیں۔
1۔ کھلے دل سے معاف کریں
اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کی درمیانی چیزوں کو بغیر حکمت کے پیدا نہیں کیا، اور قیامت ضرور آنے والی ہے، پر تو ان سے خوش خلقی کے ساتھ کنارہ کر۔ (القرآن 15:85)
اس آیت میں ہمیں یہ یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ اس دنیا اور زمین پر ہمارا وقت محدود ہے۔ اس لیے ہمیں درگزر کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ہماری خطاؤں اور ہمارے گناہوں کو معاف کر دیں تو ہمیں بھی بدلے میں اپنے دوست بھائیوں اور بہنوں کو معاف کرنے کی روش اپنانی چاہیے۔
2۔ مفاہمت کا انعام
قرآن کریم میں ارشاد باری تعٰالٰی ہے”اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پس جس نے معاف کر دیا اور صلح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔(القرآن 42:40)
اس آیت میں اللہ پاک ہمیں یہ سمجھا رہے ہیں کہ اللہ پاک صرف انہی لوگوں کو نوازے اور معاف کرے گا جو معافی کے قابل ہوں گے۔ اگرچہ بعض اوقات ایسا کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے تاہم ہمیں مفاہمت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کو بھی معاف کر دینا چاہیے جن کو معاف کرنا ہمارے لے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمیں یہ اپنے لیے نہیں بلکہ اللہ تعٰالٰی کے لیے کرنا ہوتا ہے۔
3۔ صبر اور معافی لائق تحسین ہیں۔
اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ (القرآن 42:43)
قرآن کریم میں اللہ پاک ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ صابر ہونا اور معاف کرنے کے قابل ہونا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اگر ہم واقعی ایک متحد امہ میں رہتے ہیں تو ہمیں ہے لحظہ مفاہمت کی کوشش کرنی چاہیے اور عفو و درگزر کے ذریعے معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
4. معاف کرنا اللہ پر ایمان لانا ہے
پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (القرآن 3:159)
اللہ کی نظروں میں خلوص نیت سے معاف کرنا درحقیقت اللہ پر ایمان رکھنا ہے ۔ ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ ہر چیزکو جانتا ہے اور یاد رکھیں ہمارے اعمال کا فیصلہ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات پر کامل یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ ہمیں اس چیز سے نواز دے گا جس کے ہم مستحق ہیں۔
5. کیا ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ ہمیں معاف کر دے؟
اور تم میں سے بزرگی اور کشائش والے اس بات پر قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیا کریں گے، اور انہیں معاف کرنا اور درگذر کرنا چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ (القرآن 24:22)
بالکل اسی طرح جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہمیں معاف کردے اور ہمارے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے ، ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں اسی طرح رحم اور معافی کا عمل کرنا چاہے اور یہ وہ کم از کم معیار ہے کہ ہم اللہ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔
