زرعی شعبہ ہمیشہ سے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا آیا ہے، مگر حالیہ برسوں میں اس شعبے میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے ایک خوشگوار تبدیلی کو جنم دیا ہے۔ انہی باصلاحیت اور پرعزم خواتین میں سے ایک نام معصومہ اشرف کا ہے، جو محکمہ زراعت کی گریڈ 18 کی افسر ہونے کے ساتھ ساتھ زرعی جدت اور کسانوں کی عملی رہنمائی کی علامت بن چکی ہیںمسوما اشرف کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے، جبکہ وہ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے زرعی یونیورسٹی پشاور سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اور بطور زرعی افسر محکمہ زراعت میں شمولیت کے بعد اپنی محنت، خلوص اور فیلڈ سے جڑے رہنے کی وجہ سے مختصر وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔گزشتہ دو سال سے وہ ضلع ہری پور میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں، جہاں انہوں نے زرعی میدان میں کئی عملی اقدامات سے انقلاب برپا کیا ہے۔ پنیاں کے علاقے میں واقع 30 ایکڑ پر مشتمل زرعی فارم ان کی قیادت میں ایک مثالی ماڈل فارم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہاں جدید زرعی طریقے اپناتے ہوئے نہ صرف مختلف فصلیں کاشت کی جاتی ہیں، بلکہ مقامی کسانوں کو بھی عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ خود بھی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔اس فارم میں چار خواتین اور تین مرد ملازمین شب و روز محنت سے مختلف زرعی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ فارم صرف کاشتکاری کا مرکز نہیں بلکہ علم و ہنر کی تجربہ گاہ ہے، جہاں کسانوں کو جدید بیجوں، آبپاشی کے طریقوں اور فصلوں کے تحفظ کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں۔مسوما اشرف کی زیر نگرانی اب تک 28,000 grafted پودے تیار کیے جا چکے ہیں، جن میں زیتون، سورج مکھی، آلو اور دیگر فصلوں کے پودے شامل ہیں۔ یہ تمام پودے مکمل طور پر مفت مقامی کسانوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ بھی جدید زراعت کے فوائد سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔ان کا وژن صرف زمین سے پیداوار لینا نہیں، بلکہ کسانوں کے لیے خود کفالت کی راہیں کھولنا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر سرکاری وسائل کو دیانتداری سے استعمال کیا جائے تو ان کا اثر براہ راست عام شہریوں کی زندگیوں پر پڑتا ہےزرعی شعبے میں خواتین کی موجودگی کو وہ صرف نمائشی حیثیت تک محدود نہیں رکھتیں، بلکہ اس میدان میں خواتین کو قیادت کا کردار سونپنے کی حامی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ خواتین زراعت کے ہر شعبے میں نمایاں ہوں، چاہے وہ نرسری ہو، فیلڈ ورک ہو یا ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ۔مسوما اشرف کا عزم ہے کہ وہ زراعت میں جدت، شفافیت اور عوامی خدمت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ایک ایسا ماڈل پیش کریں جو دوسرے اضلاع کے لیے بھی مثال بنے۔ ان کی قیادت میں جو کام ہو رہا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو تبدیلی ممکن ہے — اور وہ تبدیلی ہری پور کی زمین پر سبز لہلہاتی فصلوں کی صورت میں نظر بھی آ رہی ہے۔