
📌 اظہارِ رائے کا تحفظ
بل میں واضح کیا گیا ہے کہ اظہار رائے سے مراد معلومات کو نشر کرنے، شائع کرنے اور عوام تک پہنچانے کا حق ہے۔
کسی صحافی یا میڈیا ورکر کو اپنی رائے یا معلومات کے اظہار پر ہراساں یا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
📌 تحفظ کمیشن کی تشکیل
چیئرمین ہائی کورٹ کے جج یا جج کے برابر اہلیت رکھنے والا شخص ہوگا۔
چیئرمین کے لیے 15 سالہ قانونی تجربہ ضروری ہے، خاص طور پر انسانی حقوق یا صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے۔
ارکان اور چیئرمین کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔
مدت: تین سال – توسیع نہیں ہوگی۔
📌 تحفظ کی حدود
کمیشن صحافی، اس کے اہل خانہ (بیوی، بچے، زیر کفالت افراد) اور ساتھیوں کو تحفظ دے گا۔
صحافی کی جائیداد، تنظیم، گروپ اور سماجی تحریک بھی اس دائرے میں آتی ہے۔
📌 تشدد اور دباؤ پر سزائیں
ڈیوٹی کے دوران کسی صحافی پر تشدد کرنے پر:
🔹 7 سال قید + 3 لاکھ روپے جرمانہ
صحافی کو ذرائع بتانے پر مجبور کرنے کی کوشش پر:
🔹 3 سال قید + 1 لاکھ روپے جرمانہ
صحافی پر کسی گروپ یا محکمے کے دباؤ کی صورت میں:
🔹 5 سال قید + 1 لاکھ روپے جرمانہ
📌 شکایت اور کارروائی کا طریقہ کار
کمیشن کو شکایت موصول ہونے پر ایس ایچ او فوری ایف آئی آر درج کرے گا۔
تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کو فوجداری اختیارات حاصل ہوں گے۔
کمیشن شکایت کنندہ کی شناخت خفیہ رکھنے کی بھی ہدایت دے سکتا ہے۔
📌 خصوصی عدالتیں
صحافیوں سے متعلق کیسز کے لیے خصوصی سیشن عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
یہ عدالتیں وفاقی حکومت اور صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے بنیں گی۔
📌 خفیہ اداروں کی نگرانی سے استثنا
کمیشن کو خفیہ اداروں کی سرگرمیوں کی براہ راست تفتیش کا اختیار نہیں ہو گا۔
اگر شکایت آئے کہ کسی ایجنسی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، تو وہ شکایت متعلقہ مجاز اتھارٹی کو بھیجی جائے گی۔
📌 آزادی اور خودمختاری
کمیشن کا ہر رکن اور عملہ حکومت یا انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہوگا تاکہ غیر جانبداری برقرار رہے۔
🔍 ممکنہ خامیاں / خدشات:
خفیہ اداروں کے خلاف براہ راست کارروائی نہ ہونا ایک کمزوری سمجھی جا رہی ہے۔
چیئرمین اور ممبران کا تقرر حکومت کرے گی، اس پر سیاسی اثر و رسوخ کا خدشہ موجود ہے۔
توسیع نہ ہونے سے تجربہ کار افراد کو مسلسل کام کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
