
اسلام آباد (ہم گواہ)
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حالیہ شدید بارشوں کے بعد طیب اردگان انٹرچینج کے ایک حصے میں سامنے آنے والی تکنیکی خرابی نے منصوبے کی شفافیت، معیار اور ذمہ دار اداروں کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

اگرچہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ترجمان نے اس خرابی کو معمولی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اسے کنٹریکٹر نے "ڈیفیکٹ لائیبلٹی پیریڈ” کے تحت بغیر کسی اضافی لاگت کے درست کر دیا ہے، تاہم شہری ماہرین اور عوامی حلقے اسے اربوں روپے کے میگا منصوبے میں تکنیکی خامی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
اعلیٰ معیار پر سمجھوتہ؟
شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر منصوبے میں تمام تکنیکی و انجینئرنگ تقاضے مکمل طور پر پورے کیے گئے ہوتے تو چند ہی ماہ میں اس نوعیت کی خرابی پیدا نہ ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ منصوبے کی تعمیر میں ممکنہ غفلت یا ناقص مٹیریل استعمال کیا گیا۔
احتسابی اداروں سے کارروائی کا مطالبہ
عوامی نمائندگان، سماجی تنظیموں اور ماہرین نے قومی احتساب بیورو (نیب) اور محکمہ اینٹی کرپشن سے مطالبہ کیا ہے کہ اس منصوبے میں مالی، انتظامی اور تکنیکی بے ضابطگیوں کی فوری اور شفاف انکوائری کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وقت پر ذمہ داروں کا تعین نہ کیا گیا تو یہ رجحان آئندہ دیگر ترقیاتی منصوبوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔
ازسرِنو تکنیکی آڈٹ کی ضرورت
ماہرین کا اصرار ہے کہ طیب اردگان انٹرچینج کا ازسرِنو مکمل تکنیکی آڈٹ کیا جائے تاکہ کسی بھی پوشیدہ نقص یا خرابی کا بروقت پتہ لگایا جا سکے۔ اگر منصوبے میں کوتاہی یا بدعنوانی کے شواہد ملتے ہیں تو ذمہ داران کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔
عوامی وسائل کا تحفظ ضروری
شہریوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ قومی وسائل کا تحفظ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ترقیاتی منصوبے اعلیٰ معیار کے مطابق مکمل کیے جائیں اور بعد از تکمیل مؤثر نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔