دنیا تیسری جنگِ عظیم کے دہانے پر ہے ۔ مسلمان مولی گاجر کی طرح کٹ رہے ہیں، سوائے ایران ،مسلم ممالک مفادات کی محبت اور موت کے ڈر سے اپنی ریڑھ کی ہڈی گنوا چکے ہیں۔ ایران کا 180 میزائل سے حالیہ حملہ اسرائیل اور حواریوں میں کھلبلی ہے ، اسرائیلی میڈیا کےمطابق اسرائیلی مشہور زمانہ حفاظتی چھت (IRON DOM ) 85فیصد پھٹ کر اسرائیل کو غیر محفوظ بنا گیا ۔
حسن اتفاق، جب کبھی قومی مفاد کی سرخروئی کا اہتمام ہوتا ہے، عمران خان اسلام آباد پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ موصوف ریلیوں، دھرنوں، جیل بھرو تحریکوں کی ناکامی کا وسیع و عریض تجربہ رکھتے ہیں۔ اگست 2014میں سیاست کو روندتے ہوئے ایسے موقع پر ریاست بچانے اسلام آباد آئے تھے کہ ایک ماہ بعد چینی صدر شی جن پنگ کا دورہ پاکستان رُکوایا جا سکے۔ صدر شی کی آمد کا مقصد سی پیک منصوبوں کا آغاز اور پارلیمان سے خطاب کرنا تھا۔
پاکستان کے آئین کے تحفظ کے لیے نکلنا ہے منزل ڈی چوک ہے وزیر اعلیٰ کے پی
اقتدار سے علیحدہ ہونے سے پہلے ہی ملک کے ڈیفالٹ کی منصوبہ بندی ترتیب دی کہ ’’عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘ کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ 26مئی 2022قطر میں IMF کیساتھ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کی بیٹھک طے ہوئی تو 30 لاکھ لوگوں کیساتھ 25 مئی کولانگ مارچ کر ڈالا۔
PTI کے IMF کو خطوط اور IMF ہیڈکوارٹر امریکہ کے باہر احتجاج کہ ’’عمران خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘، ٹرینڈ اضافی تھے۔ سخت جان مملکت سرخرو ہو کر نکلی آج ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا۔ 15اکتوبر سے شنگھائی تعاون تنظیم ( SCO ) کا اسلام آباد میں سربراہی اجلاس مملکت کیلئے منفرد اعزاز ہے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم پہنچ چکے ہیں۔ ایک بار پھر اسلام آباد عمران خان چڑھائی کی زد میں ہے۔
المشہور شہد والی سرکار، علی امین گنڈاپور کا امتحان کڑا، ’’اے غم زندگی کچھ تو دے مشورہ، میں کہاں جاؤں ہوتا نہیں فیصلہ‘‘، ایک طرف کور کمانڈر پشاور کا گھر اور ایک طرف چیئرمین کا مےکدہ۔ اطلاعاً عرض! گنڈاپور اس دفعہ بھی اسلام آباد پہنچنے میں ناکام رہیں گے۔ شاید وزارتِ اعلیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ کل میانوالی، بہاولپور، فیصل آباد میں تین احتجاج، یکسر ناکام رہے۔ یقیناً اسلام آباد احتجاج بھی ناکام ہو گا، SCO ممالک کا سربراہی اجلاس تزک و احتشام و احترام کیساتھ منعقد ہو گا۔ انگلینڈ کرکٹ ٹیم پُرامن ماحول میں دورہ مکمل کرے گی۔ پاکستان دشمن پھر دھول چاٹیں گے۔ عمران خان کو سب معلوم ہے اگر اسلام آباد احتجاج KP اور پنجاب میں باہمی منافرت کا بندوبست کر جائے تو موصوف کے پیسے پورے ہو جائیں گے۔
اصل موضوع، پارلیمان، اسٹیبلشمنٹ، سپریم کورٹ کے زیر سرپرستی دھینگا مشتی جاری ہے۔ انگریزی کی فلم ’’ KRAMER vs KRAMER ‘‘طرز پر سپریم کورٹ بمقابلہ سپریم کورٹ، علیحدہ سے گھمسان کا رَن ہے۔ 72سال سے سپریم کورٹ نے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت پر پارلیمان اور بااصول ججز کی بے توقیری کی۔ بدلتے رنگ کہ آج اسٹیبلشمنٹ، وطنی پارلیمان اور بااصول ججز کے پیچھے کھڑی ہے، قیامت کی نشانیاں ہیں۔ جبکہ من پسند ججوں کیساتھ ڈٹ کر کھڑا ضرور ہے کپتان۔ چنانچہ ’’من پسند ججوں‘‘ کی ترتیب اور تائید میں رد و بدل کیساتھ ہی انحصار ’’مزاج یار‘‘ پر کہ بدکلامی ہو جائے۔ عرض کیا ہے، بندوق کی طاقت اور عدلیہ کی پشت پناہی سے حاصل کیا تخت، بندوق اور عدلیہ کی زد میں نہ آئے، ناممکن۔ "U Live By The Sword,U Die By The Sword” ۔
عدالتوں کے آئینی فیصلے ہماری عدالتی تاریخ کا تاریک باب ہیں۔ 1953 جسٹس منیر سے لیکر جسٹس بندیال کے 63/A پر فیصلہ تا جسٹس منصور علی شاہ اور 7ججز کا PTI کو خصوصی نشستیں سونپنا، آئین سے تجاوز کی درجنوں مثالیں عدلیہ ہی نے تو رقم کی ہیں۔ مشرف کی سپریم کورٹ سے استدعا کہ ’’مارشل لا کو نظریہ ضرورت بتائیں‘‘، سپریم کورٹ! ’’ہم آپکو آئینی ترامیم کا اختیار بھی سونپتے ہیں‘‘۔ 2022میں تحریک انصاف متمنی کہ ’’ہمارے ممبران کو 63/A کے تحت نااہل قرار دیا جائے‘‘، سپریم کورٹ! ’’انکا ووٹ بھی نہ گِنا جائے‘۔
سنی اتحاد کونسل کی درخواست ’’ہمیں اسپیشل سیٹوں سے محروم نہ رکھا جائے‘‘، سپریم کورٹ ’’ہم یہ نشستیں تحریک انصاف کو دیں گے جو سرے سے کیس میں فریق ہی نہیں تھی‘‘۔ آئین شمولیت کیلئے تین دن دیتا ہے۔ 8ماہ گزر جانے کے بعد سپریم کورٹ! ’’ہم PTI کو 15دن مزید دیتے ہیں‘‘، مت بھولیں اس وقت اسٹیبلشمنٹ سپریم کورٹ کے پیچھے ڈٹ کر کھڑی تھی، یہ تھے سپریم کورٹ کے انصافی رنگ۔ 2معزز ججوں کا کہنا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترامیمی آرڈیننس ’’میں نہ مانوں‘‘، اسکے بنائے ہوئے بینچوں میں بیٹھوں یا نہ بیٹھوں۔ کیا سپریم کورٹ پارلیمان سے بالاتر ہے؟ ججز حلف اور آئین روگرداں ہیں۔ مزید کچھ کہنے سے پہلے بلاول بھٹو کو دل کھول کر داد دینی ہے۔ ایک مدبر معاملہ فہم قومی رہنما کے طور پر دھاک بٹھا چکے ہیں۔ آج کی تاریخ میں بلاول بھٹو پرانے نئے سب سیاستدانوں کو مات دے چکے ہیں۔ بطور قد آور قومی شخصیت اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔
آئینی ترامیم پر واویلا ایسا کہ شاید انہونی ہو رہی ہے۔ آئین بننے کے پچاس سال کے اندر لگ بھگ 34ترامیم آئیں۔ چند ایک بِن کھلے مرجھا گئیں۔ معددودے چند میرٹ پر قومی امنگوں کےمطابق جبکہ ڈیڑھ درجن ایسی ترامیم جو ’’جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے‘‘۔
بانیِ آئین بھٹو صاحب کی ترامیم چشم کشا، 3 سال میں 7ترامیم کر ڈالیں۔ پہلی اور دوسری ترامیم چھوڑ کر، باقی پانچ ترامیم پر گویا کہ جمہوری روح قبض ہو گئی۔ بھٹو صاحب کی تیسری ترمیم بنیادی حقوق پر پہلا ڈاکا کہ آرٹیکل 10(A) میں ترمیم کرکے کسی بھی شہری کو DPR کے تحت 2سال تک بغیر مقدمہ نظر بند رکھا جا سکے گا۔ چوتھی ترمیم سے DPR کے تحت قید پر ضمانتوں کی مد میں ہائیکورٹ کے آرٹیکل199کے اختیارات واپس لے لئے گئے۔ پانچویں ترمیم، ہائیکورٹ ججوں کے باہمی تبادلوں کو ممکن بنانا تھا۔ چھٹی ترمیم، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں چیف جسٹس کی ملازمت میں مرضی کی توسیع کا اختیار حکومت ِوقت کو مل گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے معزول ہونے پر 1977 تک آئین 73 کا جمہوری ڈھانچہ یکسر بدل چکا تھا۔
خاطر جمع رکھیں! اگلا کالم لکھنے تک حکومتی آئینی ترامیم پیکیج شاندار کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہو گا، ممکنہ PTI بھی شامل ہو گی۔ خاطر جمع! عمران خان احتجاجی کالیں صدا بہ صحرا رہیں گی۔ علاوہ ازیں 63/A بھی اسٹرائیک ڈائون ہوگا اور PTI کو خصوصی نشستیں بھی نہیں ملنی۔ راوی نے چین لکھنا ہے۔ تحریک انصاف کیلئے ستمبر ستمگر رہا، اکتوبر میں صرف نتائج کی رسمی اشاعت ہے۔ آنے والے وقت حکومت کیلئے بہت اچھا کی رپورٹ ہے۔