’چھوٹا بھائی شادی کے لیے پیسے جمع کرنے کی غرض سے محنت مزدوری کرنے پنجگور گیا تھا۔ دو ماہ بعد اس کی شادی ہونی تھی۔ ہم تیاریوں میں مصروف تھے کہ ہمیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔ گھر کی خوشیاں ماتم میں تبدیل ہو گئی ہیں۔‘
صوبہ پنجاب کے ضلع ملتان کے علاقے شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے محمد حنیف کے چھوٹے بھائی محمد شفیق ان سات افراد میں شامل تھے جنھیں نامعلوم افراد نے سینچر کی شب بلوچستان کے شہر پنجگور میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
پنجگور پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’مسلح افراد نے انھیں دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے گولیاں مار دیں۔ ان میں سے صرف ایک بچ گیا جبکہ سات افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔‘
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے محمد ساجد، محمد خالد، محمد سلمان، محمد افتخار، محمد شفیق، محمد رمضان اور محمد فیاض کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا اور مقتولین آپس میں رشتہ دار بھی تھے۔
پنجگور پولیس کے ایس ایچ او ظہیر بلوچ کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے افراد محنت کش تھے جو علاقے میں لوگوں کے مکان تعمیر کرتے تھے۔ ’یہ لوگ ایک جگہ پر کام نہیں کرتے تھے بلکہ مختلف علاقوں میں کام کرتے تھے لیکن ان کی رہائش ایک جگہ پر تھی جہاں وہ رات کو جمع ہوتے تھے۔‘واقعے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے میں زخمی ہونے والے بلال نامی مزدور نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’دو مسلح افراد دیوار پھلانگ کر اس مکان میں داخل ہوئے جہاں یہ رہائش پذیر تھے۔ جس وقت مسلح افراد وہاں پہنچے تو یہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے۔‘حملہ آوروں نے آتے ہی آٹھوں افراد سے کہا کہ وہ اپنا منہ دیوار کی طرف کر کے ایک لائن میں کھڑے ہو جائیں۔ جب یہ لوگ کھڑے ہو گئے تو انھوں نے ان پر اندھادھند فائرنگ کی۔‘
پولیس اہلکار کے مطابق اس واقعے میں اگرچہ بلال بہت زیادہ زخمی نہیں ہوا تھا لیکن ’موت کا خوف ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔‘بلال کو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ تھوڑی دیر بعد جب سنبھلا تو اس نے پولیس اہلکاروں کو حملے کے بارے میں یہ معلومات دیں۔‘اہلکار نے بتایا کہ سی ٹی ڈی نے اس واقعے کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاہم یہ ایک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے۔
اگرچہ خدابادان کے علاقے میں پیش آنے والے اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں بدامنی کے ایسے واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔
پنجاب کے جنوبی اضلاع سے کارکنوں اور مزدوروں کی قابلِ ذکر تعداد کام کی تلاش میں بلوچستان کا رخ کرتی ہے اور گذشتہ ایک برس کے دوران بلوچستان میں پنجاب سے تعلق والے ایسے افراد کی ہلاکت کا یہ چوتھا بڑا واقعہ ہے۔
اس سے قبل اگست میں تربت کے علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی متعدد گاڑیوں کو روک ان میں سوار 22 افراد کو شناخت کے بعد ہلاک کیا تھا جن میں سے 17 کا تعلق پنجاب سے تھا۔
رواں سال ہی مئی کے مہینے میں ضلع گوادر کے علاقے سربندن میں حجام کی دکان پر فائرنگ کے واقعے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات جبکہ اکتوبر 2023 میں گوادر سے متصل ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں چھ مزدور ہلاک ہوئے تھے۔