حکومت 26ویں آئینی ترمیم پر اتفاق ہونے کے بعد اس کو ایوان میں پیش کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور وہ اس آئینی ترمیم سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔
آئینی و پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے حامی ججوں کو نہ صرف سپریم کورٹ میں بلکہ ان کو زیادہ طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ ججز جن کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ ان کے ججز نہیں، ان کے اختیارات کو کم کر کے کوئی انتظام کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا ایک ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ ’یہ ہمارے جج ہیں اور یہ آپ کے جج ہیں۔‘
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا یہ حکومت کی جانب سے اس آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد ایسا انتظام کرنے کی کوشش ہے کہ سپریم کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کا ایک ایسا آئینی بینچ ہو جس کو بلانے اور رکھنے کے اختیارات جوڈیشل کمیشن کے پاس ہوں۔
’حکومت کی کوشش ہے کہ اگر آئینی عدالت کا قیام ممکن نہیں ہو پاتا تو کم از کم ایک آئینی بینچ کے ذریعے ایک ایسا نظام بنایا جائے جو آئینی معاملات کو دیکھے اور اس کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات سے کسی حد تک باہر نکال دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس وقت یہ خوف ہے کہ نئے بننے والے متوقع چیف جسٹس کوئی ایسا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں جس سے یہ حکومت کا قائم رہنا مشکل ہو جائے اور حکومت اس وقت یہ عدم استحکام نہیں چاہتی اس لیے یہ تمام انتظام کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس انتظام سے عدلیہ کی آزادی پر اتنا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جوڈیشل کمیشن میں حکومت و اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ ساتھ دیگر رکن اور سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز بھی شامل ہوں گے اور وہاں مشترکہ فیصلہ سازی ہو گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ یہ محسوس کرتی ہے کہ ماضی میں عدلیہ نے اپنی مرضی کے ایسے فیصلے دیے ہیں جب کی توجیح کرنا مشکل تھی اس لیے اب عدلیہ کو فری ہینڈ نہیں دیا جا سکتا۔