ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے بھارت نہیں چھوڑا بلکہ وہ 2016میں عمرے پر تھے جب انہیں وکلا کی ٹیم نے بتایا کہ اب ان کا بھارت جانا مناسب نہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں اور اسی دوران ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےبھارت چھوڑنے سے متعلق بات کی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بتایا کہ ’میں 1991 سے اسلام کی دعوت دے رہا ہوں، اس عرصے میں میری تقریروں کو سن کر کئی غیر مسلم مسلمان ہوگئے اور ہمارا پروگرام مقبولیت اختیار کرنے لگا، اس پروگرام کے کراؤڈ میں 25 فیصد غیر مسلم ہوا کرتے تھے جو مجھے چاہنے لگے تھے، یہی بات بھارتی حکومت کے ایجنڈے کے خلاف تھی اور بھارتی حکومت میرے خلاف حیلے بہانے تلاش کرنے لگی تھی‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’جولائی 2016میں ڈھاکا میں شدت پسندوں کے حملے کے وقت بھارتی حکومت کو یہ موقع مل گیا، اس حملے میں 3 دہشتگرد ملوث تھے جس کے بعد ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان دہشتگردوں میں سے ایک ذاکر نائیک کا فولوور تھا اور ذاکر نائیک نے ہی اس دہشتگرد کو انسپائر کیالیکن اس کے باوجود مجھے کئی بھارتیوں نے سپورٹ کیا، اس کے بعد اسی برس نومبر میں ایک بار پھر جب بھارت کے مسلمانوں کو یکساں سول کوڈ کے چکر میں پھنسایا گیا تو میں عمرے پر تھا جب مجھے میرے وکلا کی جانب سے کہا گیا کہ میں بھارت نہ آؤں ، ایسا نہیں تھا کہ میں نے بھارت چھوڑا تھا میں تو عمرے پر گیا تھا اور پھر اس کے بعد جب مجھ پر الزام لگنے لگے تو میں نے کبھی بھارت جانے کا نہیں سوچا‘۔
معروف اسکالر کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد آنے والوں سالوں 2017 اور 2019 کے دوران بھارت نے انٹرپول سے درخواست کے ذریعے کئی حیلے بہانے تلاش کیے لیکن ان کا ہر بہانہ ناکام ہوا، اسی دوران 15 ممالک نے مجھے مستقل سکونت کی پیشکش کی اور ان تمام ممالک میں مجھے ملائیشیا سب سے بہتر ملک لگا کیوں کہ وہاں کے مسلمان کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اس ملک کا انتخاب کیا‘۔